حضرت اقدس سيدنا الامام فیاض المسلمين مولانا شاہ محمد بدرالدين نور عالم قادری بدرؔ پھلواروی قدس سرہ
۱۲۶۸ھ(۱۸۵۲ء)_________۱۳۴۳ھ(۱۹۲۳ء)
حضرت کی شخصیت ایک علیٰحدہ اور مستقل تذکرے کی مقتضی ہے، ربط و تسلسل اورتکمیل بیان کے لیے ہم نے ضمناً تذکرہ کرنے کی جراءت کی ہے ورنہ حضرت فیاض المسلمین کی عبقری اور نابغۂ روزگار ذات میں علم و عرفان اور فقر و تصوف کا ایک عہد اور ملّی تحریکات و خدمات کی ایک پوری تاریخ پنہاں ہے، آپ کی ذات سے ایک عہد کی ابتدا اور انتہاءہوئی۔ فقہی مسائل میں آپ تحقیق واجتہاد کے مقام پر تھے اور سلوک و تصوف اور علوم احسانی کے احیاء میں تجدیدی شان کے حامل ہوئے۔
حضرت اقدس نے تکمیل علوم ظاہری اپنے والد ماجد اور اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا شاہ محمد علی حبیب نصرؔ قدس سرہما سے کی، حدیث کی سند متعدد شیوخ سے حاصل کی، بخاری شریف کی قرأت و سماعت کی پہلی سند حضرت نصرؔ ؓسے حاصل کی پھر ۱۲۷۷ھ میں حضرت مولانا شاہ آل احمد محدث مدنی مہاجرؒ حضرت نصؔر ؒ کی دعوت پر مدینہ منورہ سے پھلواری تشریف لائے تو ان سے حصنِ حصین اور دیگر کتب حدیث کی سند حاصل کی، بعض کتابوں کی مکمل قرأت و سماعت بھی کی ، ۱۳۰۴ھ میں سفر حج کے موقع پر حرمین شریفین کے جن بزرگوں سے سند حاصل کی ان میں حضرت شیخ عبداللہ صالح سناری، سید محمد امین بن سید احمد بن رضوان،شیخ ابو حضیر مدنى،شيخ الدلایل مولانا عبد الحق مہاجر مکی،سید محمد بن علی حریری اور سید محمد سعید بن سید محمد مغربی بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔
مراجعت وطن کے بعد بذریعہ مراسلت شیخ عبد الجلیل ابن عبد السلام براده، شیخ محمد فالح ظاہری، شیخ عبد الحی کتانی، شیخ سلیمان حبیب اللہ اور دیگر شیوخ حرمین و مصر و شام و بیروت سے اجازت و سند حاصل کی ۔ (–غم پر ملال: مولف مولانا حکیم محمد شعيب رضوی)
حضرت مولانا شاہ آل احمد محدث سے ان کے زمانۂ قیام میں فن تجوید کی تحصیل کی، عروض کا فن حضرت مولانا شاہ وصی احمد نعمتی پھلواروی سے حاصل کیا اور شاعری میں اصلاح لی۔ (–غم پر ملال: مولف مولانا حکیم محمد شعيب رضوی)
بیعت و تعلیم باطنی اور اجازت و خلافت سب کچھ حضرت نصرؒ سے تھی، ابتدائے سلوک ہی سے باطنی فواید ظاہر ہونے لگے حرارت ذکر و فکر سے خانقاہ کا ماحول منور ہو گیا صاحب ادراک بزرگوں نے اس کو نمایاں طور پر محسوس کیا، حضرت مولانا شاہ یحییٰ قدس سرہ نے ایک بار فرمایا کہ آج کل میں خانقاہ میں ایسی روحانی تاثیر محسوس کر رہا ہوں، جیسی حضرت شیخ العالمین شاہ نعمت اللہ کے زمانہ میں تھی، اس طبعی رجحان اور تسلسل اذکار کی وجہ سے معارف و اسرار اور احوال و مقامات سے بہت جلد آشنا ہو گئے ۔ (–غم پر ملال: مولف مولانا حکیم محمد شعيب رضوی)
۱۲۸۹ھ میں آپ کے عم محترم حضرت شاہ فضل اللہ نے آپ کو سلسلہ جنیدیہ مجیبیہ کی اجازت دی اور خانقاہ جنیدیہ میں اپنا جانشین بنایا، حضرت نصرؔ قدس سرہ نے جانشینی کے وقت اپنے دست مبارک سے تبرکات پہنائے، اتفاق سے خوانچہ میں تسبیح تھی نہ کمر بند،اس لیے اپنی تسبیح جو آپ کے ہاتھوں میں اس وقت موجود تھی دیدی اور اپنا کمر بند اپنی کمر سے کھول کر ان کی کمر میں یہ شعر پڑھتے ہوئے باندھ دیا ؎
در خدمت حق گر تو مردانه کمر بندی”
“بخشد بہ تو ہر لحظه تاج و کمرے دیگر
حضرت نصرؔ کے خلفاء میں آپ سب سے ممتاز تھے، آپ کے پیر و مرشد نے اپنی حیات میں اپنے مریدین کی تعلیم و تربیت آپ کے سپرد کر دی تھی، حضرت نصرؔ کے بڑے صاحبزادے و جانشین حضرت شاہ عبد الحق آپ ہی سے مرید ہوئے اور جانشینی کے بعد آپ سے علوم باطنی کی تکمیل کی، حضرت شاہ عبدالحق رحمة اللہ علیہ بالکل آغاز شباب میں واصل بحق ہوئے، ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مولانا شاہ عین الحق نے سجاد گی ترک کر کے قصبہ گھگھٹہ ضلع چھپرہ میں اقامت اختیار کرلی تو جانشینی کا وہ سلسلہ جو حضرت تاج العارفینؓ کی اولاد میں نسلاً بعد نسل چلا آرہا تھا منقطع ہو گیا، آپ حضرت نصؔرؒ کے خلیفہ اور داماد اور قریبی رشتہ میں بھتیجے تھے اس لئے سجادگی کے لئے آپ کا انتخاب ہوا۔ ۱۳۰۹ھ میں مریدین و مخلصین اور علماء و مشائخ کے کثیر اجتماع میں آپ سجادہ مجیبیہ پر جانشین کیے گئے، آپ سے سلسلہ مجیبیہ کو بہت فروغ ہوا، آپ کے واسطے سے یہ سلسلہ شام و عراق عرب و حبش و افغانستان تک پہنچا، غزنین کے سینکڑوں باشندے آپ کے دست گرفتہ تھے، علامہ ابو خضیر مدنی نے جو آپ کے شیوخ حدیث میں ہیں آپ سے سلسلۂ قادریہ مجیبیہ وارثیہ کی اجازت لی، آپ کے عہد میں خانقاہ مجیبیہ مرجع خلائق ہو گئی علماء و مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا، اگر ایک طرف حضرت مولانا محمد شریف اعظمی، مولانا سید دیانت حسین، مولانا سید عبید الله امجہری مولانا رحیم بخش آروی، مولانا عبد الوہاب آروی، مولانا عبد الحمید دربھنگوی، مولانا مقبول احمد خان دربھنگوی جیسے ممتاز علماء ارباب درس اور اصحاب تصانیف حضرت کے دامن ارادت سے وابستہ تھے تو دوسری طرف وزاء و حکام اور جد یدتعلیم یافتہ حضرات کا ایک بڑا طبقہ بھی حضرت کا حلقہ بگوش تھا، مثلاً آنریبل خان بهادر مولوی فخرالدین وزیر تعلیم مسٹر محمد یونس بار ایٹ لاء،مِسٹر نورالہدیٰ سابق جج (بانی مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ)، غرض اسی قدوقامت کے علماء و مشاہیر آپ کے گرد جمع تھے اور آپ کی ذات بابرکات “البدر في النجوم” کا سماں پیش کر رہی تھی۔
حضرت اقدس نفعنا اللہ بروحہ الشریف نے قرآن اور علوم احسان کی تدریس کا اہتمام جس وسیع پیمانے پر کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ درس قرآن اور درس مکتوبات صدی حضرت مخدوم الملک کا سلسلہ سالہا سال تک جاری رکھا جس میں پٹنہ، آرہ، گیا، اور جہان آباد کے جدید تعلیم یافتہ حضرات نیز وکلاء، بیرسٹر اور وزراء و افسران شریک ہوتے۔ (“معارف” اعظم گڈھ، ستمبر ۱۹۷۷ء)
اس درس سے ایک طرف علماء و مشائخ میں فکر و نظر کی بلندی پیدا ہوئی تو دوسری طرف علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے اندر علم و عرفان کا ذوق پیدا ہوا۔
علم و عرفان میں حضرت کی جہانگیری مسلّم تھی ، حکومت برطانیہ نے آپ کے فضل و کمال کے اعتراف میں ۱۹۱۵ء میں “شمس العلماء” کا خطاب پیش کیا ضلع کا کمشنر مسٹرسی۔ اے۔ ڈبلو۔ اولڈھم خطاب وخلعت لے کر خود حاضر ہوا اور درج ذیل تقریر کی ۔
“جناب سجادہ نشین صاحب
آپ کو حضور وائسرائے و گورنر جنرل صاحب بہادر نے خطاب شمس العلماء سے ممتاز فرمایا ہے، مجھے اس بات کا بڑا فخر ہے کہ آج میرے ہاتھ سے اس خطاب گرامی کے تمغہ اور سند آپ کی جناب میں پیش کیے جاتے ہیں، یہ عزت بخشی گورنمنٹ کی جانب سے آپ کے وفور علم اور زہد اور تقدس کے اعتراف کرنے کے خیال سے عمل میں آئی ہے، آپ ایک قدیم اور متبرک خانقاہ کے ایک بڑے باوجاہت سجادہ نشیں ہیں آپ کے فیض اور جوہر سے آپ کے علم حدیث سے، آپ کے مقدس طریقۂ زندگی سے نہ صرف اہل صوبہ بہار واقف ہیں بلکہ آپ کے کمالات کی شہرت دور دراز مقامات تک بھی پہنچی ہوئی ہے، خود آپ کو کسی قسم کی عزت یابی کی تمنا نہیں ہو سکتی، آپ ہرگز دنیاوی خطابات اور مدارج کے طلب گار نہیں ہو سکتے، آپ دنیا سے علیٰحدہ زندگی بسر کرتے ہیں، دنیا آپ کا شیوہ نہیں۔ ظاہر رہے کہ یہ عزت بخشی گورنمنٹ ہند کی جانب سے آپ کی رضا و رغبت کے ساتھ نہیں عمل میں آئی ہے، تاہم آپ کی اس عزت یابی سے ضرور ہے کہ اہل اسلام خرسند ہوں، اس خیال سے کہ گورنمنٹ سے آپ کے علم و فضل کی قدر شناسی ہوئی ہے۔
جناب سجادہ نشین صاحب !
میری مبارک باد قبول ہو۔ یہ بھی میری دعاء اللہ تعالیٰ سے ہے کہ آپ کی زندگی ممدود ہو تا کہ آپ کی ذات با برکات سے خیر جاری رہے اور علم وفضل کی ترقی ہو اور اپنے ہم مذہب کے درمیان محترم رہیے۔”(ماہنامہ معارف، پھلواری، شوال ۱۳۳۳ھ)
حضرت کے فقر غیور نے برطانوی حکومت کی طرف سے دیے گئے اعزاز کو قبول نہیں کیا، ارادہ کیا کہ واپس کر دیں مگر بعض مخلصین سرفخر الدین جسٹس نورالہدیٰ وغیرہ کے اصرار پر رک گئے، لیکن پہلی جنگ عظیم (جو اس وقت چھڑی ہوئی تھی ) میں ترکوں سے انگریزوں کی ذلت آمیز صلح پر پورے عالم اسلام کو سخت صدمہ پہنچا، حضرت نے تمام مصالح بالائے طاق رکھ کر شان استغنا ءحمیت دینی اور کمال جرأت سے خطاب وخلعت ایک مکتوب گرامی کے ساتھ کمشنر ضلع کے ذریعہ حکومت برطانیہ کو واپس کر دیا، حضرت نے مِلّی غیرت اور دینی حمیت کے اظہار میں نہ صرف خطاب واپس کیا بلکہ تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں پر جوش حصہ لیا، بہار میں ان تحریکوں کو آپ کی سرپرستی اور سر پناہی حاصل رہی، مکاتیب مبارکہ سے خلافت اور خلیفہ المسلمین کی اہمیت واضح فرمائی اور ترک موالات اور خلافت سے متعلق شکوک وشبہات زایل فرمائے، ملعات بدریہ کا تیسرا حصہ ان ہی مکاتیب پر مشتمل اور آپکے نگاہ کی وسعت فکر کی اصابت اور قلب و دماغ کی بصیرت کا مظہر ہے۔
۱۳۳۹ھ (۱۹۲۱ء) میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کی تحریک سے بہار میں امارت شرعیہ قائم ہوئی ۔ ۱۷ شوال کو پتھر کی مسجد پٹنہ سٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں انتخاب امیر کا عظیم الشان جلسہ ہوا، اس جلسہ میں علمائے بہار نے باتفاق رائے حضرت اقدس کو بہار و اڑیسہ کا امیر شریعت منتخب کیا، تحریک کی خوش نصیبی کہ پہلے ہی مرحلہ میں اس کو حضرت فیاض المسلمین جیسی جامع کمالات ہستی کی امامت و قیادت حاصل ہوئی اور حضرت کے اثر سے نہ صرف یہ کہ امارت نے ایک فعال ادارے کی شکل اختیار کر لی بلکہ حضرت کی مرجعیت نے اس کو بڑا استحکام بخشا، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ برابر حضرت کے نائب اور مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے، حضرت اقدس نے بحیثیت امیر مختلف مواقع پر مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے فرامین جاری فرمائے۔
۱۳۰۴ ھ میں آپ حج و زیارت حرمین شریفین سے فارغ ہو چکے تھے، مشائخ حرمین نے آپ سے سلسلہ مجیبیہ کی اجازت لی اور اپنے سلاسل اور حدیث کی اجازت دی، شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی اس وقت حیات تھے آپ نے ان سے دعا حزب البحر کی اجازت لی، اجازت نامے میں حضرت حاجی صاحب قدس سرہ نے نہایت بلند الفاظ میں آپ کا ذکر کیا ہے ۔(اردو ترجمہ):
“آسمان و زمین کے درمیان مقبول (جناب شاہ) بدرالدین ، اللہ مسلمانوں کو ان سے مستفید کرے ان مشائخ میں سے ہیں جن کا ظاہر و باطن (دونوں) تجلیات ذکر الہی سے منور ہے ، آپ فناء و بقاء کے اعلیٰ ترین مقامات سے بھی مشرف ہوچکے ہیں ۔”
حضرت فیاض المسلمین کی علمی خدمات کے باب میں حضرت کے مکاتیب بڑی اہمیت کے حامل ہیں، یہ مکتوبات مختلف علمی مسائل پر مشتمل ہیں اور لوگوں کے استفسارات کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں، ہر جواب جس تحقیق اور شرح وبسط سے تحریر فرمایا ہے وہ مستقل رسالہ کی صورت میں ہے، حضرت مولانا حکیم محمد شعیب نیرؔ نے تمام جوابات کو “لمعات بدریہ” کے نام سے جمع کر دیا ہے، فقہ، تصوف اور آثارات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے موضوعات پر اس میں بڑی تحقیقی بحثیں ہیں اور سب میں اجتہاد کا رنگ غالب ہے، چونکہ مضامین مختلف النوع ہیں اور بارہ سو صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اس لیے حضرت نیرؔ نے ان کو کئی حصوں میں مرتب کیا ہے تفصیل یہ ہے :
(۱) حصہ اول لمعات بدر یہ ” آثار الرسول
(۲) حصہ دوم ” المكاتیب النادره فيمایتعلق بالمسائل الحاضره
(۳) حصہ سوم ” مسئلہ گاؤ کشی و قربانی
(۴) حصہ چہارم اجوبہ اسئلہ مشکلہ (یہ چار حصے طبع ہوچکے ہیں)
(۵) حصہ پنجم ” اجوبہ اسئلہ خمسہ غیر مطبوعہ ،ان سب کے علاوہ بقیہ حصے اب تک غیر مطبوعہ ہیں
(۶) بیان المعانی تفسیر اردو نا تمام
(۷) تذکرۂ انساب خاندان امیر عطاء اللہ قلمی
(۸) رد اعتراض عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب
(۹) رساله طاعون
(۱۰) الوسیلۃ والتوسل، مطبوعہ
(۱۱) رویت ہلال مطبوعه
(۱۲) مجموعه اشعار مطبوعہ ۔
ماہنامہ معارف (پھلواری شریف) میں حضرت کے مفید مقالے اکثر و بیشتر شائع ہوتے رہتے تھے، ان مقالات میں بعنوان ” اخلاق حمیدہ یا خلق محمدی ” احوال مولائے کائنات”: “برزخ “( تصور شیخ کے جواز پر ہے) بہت اہم ہیں۔ معارف کے کئی شماروں میں بالاقساط شائع ہوئے، حضرت کے تمام مضامین معارف میں “محمد بن محمد بن محمد “ کے نام سے شائع ہوئے کیوں کہ حضرت کو اپنے نام کا اظہار پسند نہیں تھا، اس سے حضرت کے بے مثل تواضع کا اظہار ہوتا ہے۔
اس مبارک ذکر کو ہم صاحب نزہتہ الخواطر کے بیان پر تمام کرتے ہیں جس سے اس عہد کے تمام اکابر کے محسوسات کی ترجمانی ہوتی ہے ۔
“شیخ عالم فقیہ، زاہد جناب شاہ بدرالدین ابن شرف الدین ابن ہادی ابن احمد ی جعفری حنفی اپنے عہد کے کبار مشائخ میں سے ہیں ،صوبہ بہار میں آپ کو عظیم ترین مقبولیت حاصل ہے ملک کے اطراف واکناف سے طالبین حق آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہیں، آپ کے علم، زہد، تقدس اور جرأت حق نیز در دمندی ملت کی شہرت ہمہ گیر ہے۔ بہار کے مسلمانوں نے آپ کو امیر شریعت منتخب کیا تو آپ نے صدق واخلاص کے ساتھ مسلمانوں کی صلاح و فلاح پر استقامت اختیار فرمائی، یہاں تک کہ واصل بحق ہوئے ۔ میں پھلواری ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، میں نے ان کو شیخ کامل، صاحب محبت ، کریم الاخلاق ، فیاض اور صاحب اتحاف پایا ہے ، آپ نہایت حسین و جمیل سخت ترین عبادت و ریاضت کرنے والے ، ہمیشہ مطالعہ کتب میں مشغول رہنے والے ایسے بزرگ ہیں جن کی پیشانی پر قبول و توفیق کے انوار چمکتے ہیں”
حضرت کے چار صاحبزادے ہوئے،
حضرت محیؔ الملة والدین مولانا شاہ محمد محی الدین قادری ،حضرت قمر طلعت مولانا شاہ محمد قمر الدین قادری ،حضرت امام المتقین مولانا شاہ محمد نظام الدین قادری، حضرت مولانا حافظ شاہ شہاب الدین قادری رحمہم اللہ تعالیٰ و رضی عنہم اجمعین،
بڑے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ محمد محی الدین قادری قدس سرہ حضرت کے جانشین ہوئے، آپ کی مکمل سوانج چھپ چکی ہے تفصیل کے لیے سوانح حیات دیکھی جائے۔
ماخوذ از “سوانح: حضرت امان المستجیرین قدس الله سرہ العزيز” مولف: حضرت عمدةالمتوکلین شاہ ھلالؔ احمد قادری پھلواروی قدس سرہ، دار الاعشاعت خانقاہ مجیبیہ
(ENGLISH TRANSLATION OF THE SAME)
Hazrat Aqdas Syedna Al-Imam Faiyyazul Muslimeen Shah Mohammad Badruddin Noor Alam Quadri ‘Badr’ Phulwarvi Quds Sirrahu
1268A.H. (1852 C.E.)______________ 1343A.H. (1923 C.E.)
Hazrat Faiyyazul Muslimeen’s (Quds Sirrahu) personality demands a distinct and perpetual remembrance. In order to establish connections, coherence, and to provide a comprehensive explanation, we have dared to compile this brief account.
Otherwise, the extraordinary and remarkable life of Hazrat Faiyyazul Muslimeen encompasses a legacy of knowledge, mysticism, piety, and Sufism, along with a rich history of intellectual pursuits and services. The beginning and end of an era are encapsulated within his being.
In matters of jurisprudence, he occupied the position of research and ijtihad, while he brought about a revival in practices of Sufism and spiritual sciences.
Hazrat Aqdas attained completion in external sciences through the guidance of his father, and his reseved mentor, Hazrat Maulana Shah Ali Habib Nasr Quds Sirhumaa, may their sanctity be preserved. He acquired the chains of narrators (sanad) in Hadith from numerous esteemed scholars. He initially received the chain of narrators for Sahih al-Bukhari from Hazrat Nasr, and later in 1277 AH (1860 CE), on call of Hazrat Nasr, Hazrat Maulana Shah Aal-Ahmed Muhajir Madani, (who was a scholar and a muhaddith) travelled from Madinahtul Munawwarah to Phulwari Sharif, from him, he obtained the sanad for Hasn-e-Haseen and other Hadith collections.
During his Hajj journey in 1304 AH (1887 CE), Hazrat acquired chains of narrators from the great scholars of haramain-shareefain (Makkah and Madinah). Among them, the chains from luminaries such as Hazrat Sheikh Abdullah Saleh Sanari, Syed Muhammad Amin bin Syed Ahmad bin Rizwan, Sheikh Abu Hazeer Madani, Sheikh ul-Dalail Maulana Abdul Haq Muhajir Makki, Syed Muhammad bin Ali Hurairi, and Syed Muhammad Saeed bin Syed Muhammad Maghribi hold immense significance.
After returning to his homeland, Hazrat sought authorization and chains of narrators through correspondence with scholars. He obtained permission and sanad from scholars like Sheikh Abdul Jalil ibn Abdus-Salam Buradah, Sheikh Muhammad Falih Zahiri, Sheikh Abdul Hai Katani, Sheikh Sulaiman Habibullah, as well as other scholars from the Haramain, Egypt, Shām, and Beirut.
During the era of Hazrat Maulana Shah Aal Ahmed, he acquired the art of Tajweed (correct recitation of the Quran) and learned the rules of Qira’at (modes of recitation). He obtained the science of prosody (Arabic poetic meter) from Hazrat Maulana Shah Wasi Ahmed Nemati Phulwari, refining his skills in poetry.
He received spiritual initiation (bai’at) and inner education from Hazrat Nasr, and all permissions, including leadership (khilafat), were granted by him. From the very outset of his spiritual journey, the hidden benefits began to manifest. The atmosphere of the Khanquah became illuminated through the fervor of remembrance and contemplation. Great personalities perceptibly sensed this change, and Hazrat Maulana Shah Yahya, (may his sanctity be preserved), once remarked that he was currently experiencing a spiritual impact in the Khanquah similar to what was felt during the time of Hazrat Sheikh-ul-Aalamin Shah Nematullah Wali, (may his sanctity be preserved). Due to this natural inclination and the continuous recitation, the comprehension of spiritual knowledge and mysteries, along with states and stations, became readily apparent in a short span of time.
In 1289 AH (1872 CE), his respected uncle, Hazrat Shah Fazlullah, granted him permission and authority within the Junaidiya and Mujeebia Sufi orders, and he appointed you as his spiritual successor at the Khanquah Junaidiya. During the ceremony of spiritual succession, Hazrat Nasr, (may his sanctity be preserved), bestowed blessings with his blessed hands. Coincidentally, there was no rosary (tasbih) nor waistband (kamarband) were present in the Khanquah. Therefore, using the tasbih in his (Hz. Nasr) hand and opening his own waistband, he tied it around your (Hz. Faiyyazul Muslimeen) waist while reciting these verses:
در خدمت حق گر تو مردانه کمر بندی”
“بخشد بہ تو ہر لحظه تاج و کمرے دیگر
Translation:
“If you courageously bind your waist in the service of Truth,
Every moment, He will grant you a new crown and chamber.”
Among the successors of Hazrat Nasr, you were the most distinguished. His peer-o-mueshid, entrusted the education and training of his disciples to him during his lifetime. Hazrat Nasr’s eldest son and his designated heir and successor, Hazrat Shah Abdul Haq, became your disciple after which, he attained spiritual knowledge from you. Following this, his younger brother, Maulana Shah Aain ul Haq, left Sajjadgi (the position of spiritual succession) and settled in Ghaghata, Chhapra District. Thus, the lineage of spiritual succession from Hazrat Tajul-Aarfeen, passed down through generations, was disrupted.
He, being the nephew, and son in law of Hazrat Nasr and having a close familial relationship, were chosen for Sajjadgi. In 1309 AH (1892 CE), in a gathering of disciples, devotees, scholars, and Sufi masters, you were appointed as the spiritual successor at Sajjada Mujeebia. This led to the tremendous growth of the Mujeebia order, and through his efforts, the order spread to regions like Syria, Iraq, Arabia, Abyssinia, and Afghanistan. Thousands of followers in Ghazni were under your tutelage.
After this, Allama Abu Khazir Madani, who was among your Hadith mentors, sought your permission for the Quadriya Mujeebia spiritual lineage. Under your stewardship, Khanquah Mujeebia became a center of guidance for scholars and Sufi masters.
While prominent scholars and authors, such as Hazrat Maulana Muhammad Sharif Aazami, Maulana Syed Diyanat Hussain, Maulana Syed Obaidullah Amjhari, Maulana Raheem Baksh Aarwi, Maulana Abdul Wahab Aarwi, Maulana Abdul Hameed Durbhangwi, and Maulana Maqbool Ahmad Khan Durbhangwi, were devoted to you, there was also a large group of governors, officials, and educated individuals who considered you their spiritual guide.
Your presence was surrounded by esteemed scholars and notable personalities, including Honourable Khan Bahadur Maulvi Fakhruddin, (Minister of Education), Mr. Muhammad Yunus Bar-at-Law, Mr. Noorul Huda (former judge, founder of the madarsa islamia Shamshul Huda, Patna), and others who were all esteemed in their fields. This circle of scholars and luminaries gathered around you, and your presence resonated with the blessings of the moon among the stars.
Hazrat Aqdas (may Allah sanctify his soul) took on the responsibility of teaching the Quran and the sciences of Ihsan (spiritual excellence) on an extensive scale, an example of which is unparalleled. The century-old tradition of teaching the Quran and written studies Dars-e-Quran and Dars-e-Maktoobat (Maktubāt e Sadi: Hz Makhdoomul Mulk) continued for decades, with participation from scholars and educated individuals in cities such as Patna, Arrah, Gaya, and Jehanabad. This educational endeavour included not only scholars but also lawyers, barristers, ministers, and officials.
On one hand, this teaching initiative elevated the thoughts and perspectives of scholars and Sufi mentors, while on the other hand, it instilled a taste for knowledge and spiritual understanding within the ranks of scholars and the modern educated class
The distinguished “Shamsul`Ulama” (title used for Hazrat Maulana Shah Mohammad Badruddin Quadri Phulwarvi Sahib, means: “Sun of the Scholars”)
During his lifetime, Hazrat was well-versed in the realms of knowledge and spirituality. In 1915, the British government recognized his excellence and distinction. Mr. C.A.W. Oldham, the District Commissioner, read aloud the following address:
“To the Distinguished Sajjada Nasheen Sahib,
His Excellency the Viceroy and Governor-General has honored you with the title ‘Shamsul-`Ulama’ (Sun among Scholars) in recognition of your vast knowledge, piety, and sanctity. I am immensely proud that today I have the privilege to present this letter and certificate to you on behalf of His Excellency. This gesture by the government signifies its implementation of actions based on the appreciation for your profound knowledge of Hadees, sacred way of life, and sanctity. Not only are you a revered figure in an ancient and blessed shrine, but your knowledge and virtues have not only been acknowledged by the people of Bihar but have transcended to far-reaching places. The government takes pride in your immense knowledge and piety.
Respected Sajjada Nasheen Sahib,
Please accept my hearty congratulations. I pray to Allah that He grants you a prolonged life so that your esteemed personality continues to be a source of well-being and blessings. May your knowledge continue to flourish, and may you remain honoured among our fellow followers of the faith.”
This recognition by the government of the British India illustrates the deep respect and acknowledgment for Hazrat Maulana Shah Mohammad Badruddin Quadri Phulwarvi Sahib’s exceptional knowledge and spirituality.
His devotion to poverty prevented him from accepting the honor offered by the British government. He intended to return them, but due to the insistence of some sincere individuals like Sir FakhrudDin Justice Nurul-Huda, he reconsidered. However, during the First World War (which had broken out by then), the humiliating peace treaty with the British, stemming from their defeat by the Turks, had a profound impact on the entire Muslim world. With unwavering determination, he declined the offers while maintaining his dignity, and through a letter written with great humility and remarkable courage, he returned the honors to the British authorities through the district commissioner. At the time of the peace treaty’s announcement, Hazrat collected all the benefits that had been bestowed upon him, including a commendation certificate from the Viceroy and Governor-General, and publicly returned them. This act of Hazrat had an immense influence in the Muslim world, which was undergoing a tumultuous period.
His determination to uphold the honour of the Muslims, despite being in a position of influence, was unparalleled. Although Hazrat was well aware of the value of these recognitions, he stood firm in his commitment to the welfare of the Muslim community and the honour of the religion. In this significant phase, when the Treaty of Versailles was being signed and the Muslim world was grappling with the consequences of the Treaty of Sevres, Hazrat demonstrated exceptional leadership by rejecting the awards, which were presented in a time of adversity and challenge for the Muslim Ummah.
The First World War had led to the defeat of the Ottomans, and the humiliating peace agreements deeply impacted the Muslims’ collective psyche. Hazrat, with his strong principles and convictions, demonstrated his commitment to the welfare of the Muslim Ummah and the protection of Islamic sanctities. He highlighted the importance of the Caliphate and its significance in the lives of Muslims. Through his eloquent and well-thought-out letters, he addressed these crucial issues and dispelled any doubts or suspicions related to the abandonment of the Caliphate or the relinquishment of Muslim rights.
Hazrat’s role in the Khilafat Movement and the Tark-e-Mawalat Movement was pivotal. He played an active and passionate role, leading from the front. In Bihar, he provided guidance and leadership to these movements, ensuring that they remained peaceful and in line with the principles of Islam. His involvement, especially in the non-cooperation movement, had a profound impact on the people of Bihar. His fiery speeches and inspiring words resonated with the masses, invigorating their commitment to the causes.
At the same time, Hazrat emphasised the importance of spiritual and moral reform. He believed that the true strength of the Muslims lay not only in political activism but also in the purity of their hearts and adherence to Islamic teachings. He viewed the Khilafat Movement as an opportunity for Muslims to revitalise their faith and values.
Throughout this turbulent period, Hazrat remained dedicated to the service of Islam and the welfare of the Muslims. His devotion to his mission, his unwavering stance against injustice and oppression, and his ability to galvanise the masses with his speeches and writings earned him a prominent place in history.
In 1921 (1339 AH), under the leadership of Maulana Abu’l Muhasin Muhammad Sajjad,(may Allah have mercy on him), the establishment of the Shari’a rule took place in Bihar through a movement. On the 17th of Shawwal, a momentous gathering was held at the Pathar Ki Masjid in Patna City, led by Maulana Abu’l-Kalam Azad, where the election of the Amir (leader) took place. In this assembly, the scholars of Bihar unanimously chose Hazrat Aqdas as the Amir-e-Shari’at (spiritual leader) of Bihar and Odisha.
The movement was fortunate, as in its initial phase, it was guided and led by someone of the stature of Hazrat Faiyyazul Muslimeen. Under Hazrat’s influence, not only did the establishment of the governance take shape as an active institution, but also his authority lent it substantial strength. Maulana Abu’l Muhasin Muhammad Sajjad, may Allah have mercy on him, worked alongside Hazrat as his deputy and advisor. His leadership remained in harmony with Hazrat’s guidance.
Hazrat Aqdas, as the Amir, issued instructions on various occasions to guide and lead the Muslims. His guidance played a pivotal role in shaping the direction of the movement and ensuring its alignment with the principles of Islam. The establishment of Shari’a rule brought about significant changes, and the movement began functioning as an active organisation under Hazrat’s leadership.
In the year 1304 AH, he had completed the Hajj and Umrah pilgrimage to the Holy Shrines. The revered scholars of the Haramain Sharifain (Mecca and Medina) granted him the permission and authorization for the Mujeebia Sufi Order, and they also granted you permission to transmit their chains of spiritual lineage and hadith. At that time, Sheikhul-Arab wal-Ajam Haji Imdadullah Muhajir Makki, (may Allah have mercy on him), was alive, and you received the permission for the “Hizbul-Bahr” supplication from him. In the authorization letter, Hazrat Haji Sahib, (may his secret be sanctified), praised you in the most elevated words. That translation is as follows:
“In the domain spanning both the heavens and the earth, personalities like Shah Badruddin, Allah bless them, who are a source of benefit for the Muslims, are among these scholars. Their inner and outer states are illuminated by the remembrance of the Divine. You have now reached the most exalted realms of annihilation and subsistence.”
In the context of the scholarly services of Hazrat Faiyyazul Muslimeen, his letters hold great significance. These letters encompass various scholarly topics and are written in response to people’s inquiries. Each response, composed with research and detailed explanations, is in the form of a dedicated treatise. Maulana Hakim Muhammad Shoaib Naiyyar compiled all these responses under the title of ‘Lama’at e Badriya’. These letters cover a range of subjects including jurisprudence (fiqh), spirituality (tasawwuf), and the teachings of the Prophet Muhammad, peace be upon him. They showcase extensive research and predominant use of independent reasoning (ijtihad) across various subjects.
Due to the diverse nature of the content and its spread over around 700 pages, Hz. Naiyyar divided them into several sections. The details are as follows:
1. Part One: ‘Aasaar ul-Rasool’ (Sayings of the Prophet)
2. Part Two: ‘Al-Makatib an-Naadira Fi Ma Yata’allaq bil Masa’il ul-Haadira’ (Rare Letters Regarding Contemporary Issues)
3. Part Three: ‘Mas’ala Gao Kashi wa Qurbani’ (The Issue of Animal Slaughter)
4. Part Four: ‘Ajwibat al-Masail Mushkilah’ (Answers to Complex Questions) – This part is already published
5. Part Five: ‘Ajwibat al-Masail Khamsah’ (Answers to Five Questions) – Not yet published
6. Part Six: ‘Bayan al-Ma’ani Tafsir Urdu Na Tamam’ (Explanation of Meanings: Complete Urdu Tafsir)
7. ‘Tazkirat-un-Nisab Khanadan Ameer Ataullah ‘Qalmi’ (Genealogy of the Family of Ameer Ataullah ‘Qalmi)
8. ‘Radd-e-Etiraz Umdatu-taalib Fi Unsaab Aal Abi Talib’ (Refutation of the Objections of “Umdatu-taalib” Regarding the Lineage of the Family of Abu Talib)
9. ‘Risalah Ta’un’ (Plague Treatise)
10. ‘Al-Wasilah wal-Tawassul’ (Means and Methods of Seeking Nearness to Allah) – Published
11. ‘Ruyat Hilal’ (Moon Sighting) – Published
12. ‘Majmua Ash’ar’ (Collection of Poems) – Published
The majority of these parts are yet to be published.
The esteemed articles of Hazrat Maulana Shah Mohammad Badruddin Quadri Phulwarvi were frequently published in the monthly magazine ‘Maarif’ (Phulwari Sharif). These articles held significant importance, particularly the ones titled ‘Akhlaq Hamidah ya Khulq-e-Muhammadi’ (Noble Ethics or the Character of Muhammad) and ‘Ahwal Maula-e Kainaat’ (The Life of the Master of All Creation). Another crucial topic, ‘Barzakh,’ was explored based on the permission of Sheikh-ul-Arab.
These valuable contributions appeared in numerous issues of ‘Maarif.’ All of Hazrat’s articles were published under the pen name ‘Muhammad bin Muhammad bin Muhammad’ because he preferred not to express his own name, which reflected his unparalleled humility.
We conclude this blessed mention in the light of the statement of ‘Sahib Nazhatul-Khawatir’, which serves as an interpreter of the sentiments of all the elders of this era:
“Sheikh Aalim, Faqih, and Zāhid, Janab Shah Badruddin, son of Sharfuddin, son of Hadi, son of Ahmed Ahmadi Jafri Hanafi, is among the prominent senior scholars of his era. In the province of Bihar, you have achieved the greatest popularity, and people from all around the country come to seek your guidance. Your knowledge, asceticism, sanctity, and courage are well-known in the realm of truth. The Muslim community in Bihar chose you as the Amir-e-Shariat (Leader of Islamic Law), and you steadfastly held onto guiding and prospering the Muslims with sincerity and dedication. This dedication even led to facing adversities with resolve and steadfastness. I, from Phulwari, am honored to serve under your guidance. I have found in you the qualities of a perfect scholar, a beloved figure, a kind-hearted individual, and a person of magnanimous character. You are known for your beautiful and rigorous worship and devotion, and you remain engrossed in the study of books. You are such a great personality upon whose forehead the lights of acceptance and success shine brightly.”
Four sons were born to Hazrat Maulana Shah Mohammad Badruddin Quadri Phulwarvi:
- Hazrat Mohiul Millat Wad-deen Maulana Shah Muhammad Mohiuddin Quadri,
- Hazrat Qamr-Talat Maulana Shah Muhammad Qamaruddin Quadri,
- Hazrat Imamul Muttaqin Maulana Shah Muhammad Nizamuddin Quadri, and
- Hazrat Maulana Hafiz Shah Shahabuddin Saqib Phulwarvi. May Allah be pleased with all of them.
The elder son, Hazrat Maulana Shah Muhammad Muhiuddin Qadri, succeeded Hazrat (Maulana) Shah Mohammad Badruddin Quadri Phulwarvi. His complete biography can be found in ‘Sawaneh Hayat: ‘Mohiul Millat Wad-deen.
– Sourced from book “Sawaneh Hz. Amaanul Mustajireen Quds Allah Sirrahul Azeez”, written by Hz. Umdahtul Mutawakkilin Shah Helal Ahmad Quadri Phulwarvi Aleha Rehma, published by Darul Esha’at Khanquah Mujeebia.